دوستو کیسے ہو آپ؟ پتہ نہیں کیوں یہ سطریں لکھتے وقت مجھے کسی شاعر کا کہا ہوا ایک شعر کیوں یاد آ رہا ہے حالانکہ اس شعر کا اس کہانی کے ساتھ کوئی خاص تعلق بھی نہیں ہے پھر بھی اس کہانی کو لکھتے ہوئے یہ شعر بار بار میرے حافظے میں گونجتا رہا ہے ۔۔وہ شعر کچھ یوں ہے کہ ۔۔۔ دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی ۔۔ لوگوں نے میرے صحن میں رستہ بنا لیا ۔۔۔ تو بھائی لوگو ۔۔ قصہ اس شعر لکھنے کا کچھ یوں ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب مرای کہانی” تراس ” شائع ہوئی تھی تو اسے خاص طورپر طبقہء نسواں میں بہت پسند کیا گیا تھا ۔۔۔ اور بہت سی خواتین نے مجھ رابطہ کیا اور کہا کہ میں ان کی بھی سٹوری لکھوں ۔۔۔ چنانچہ ان خواتین میں سے ۔ایک خاتون کی سنائی ہوئی یہ سٹوری حاضرِ خدمت ہے ہاں اس سلسلہ میں ایک بات ضرور کہوں گا کہ ۔۔۔کہانی کو من وعن ویسا ہی نہیں لکھا گیا جیسا کہ اس خاتون نے سنایا تھا ۔ بلکہ آپ کے من و رنجن کے لیئے میں نے اپنی طرف سے بھی اس میں کچھ ” میٹھا اور تیکھا ” ڈالا ہے۔۔۔ باقی کہانی کی روح عین وہی ہے جو اس معزز خاتون نے مجھے سنائی تھی۔۔۔اس ضروری بات کے بعد آیئے کہانی کی طرف چلتے ہیں ۔
ہیلو دوستو میرا نام صبو حی ملک چوہان ہے میرے گھر والے اور عزیز رشتے دار پیار سے مجھے صبو کہتے ہیں اس وقت میری عمر 32 سال ہے میں شادی شدہ اور تین بچوں کی ماں ہوں میں عرصہ دراز سے اس فورم پر لکھی ہوئی سیکسی کہانیوں کو پڑھ کر انجوائے کر رہی ہوں اور ان گرم سٹوریز کو پڑھ پڑھ کر مجھے بھی حوصلہ ہوا کہ میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ اپنی زندگی سے جُڑی سیکس سے بھر پور کچھ حسین یادیں شئیر کروں کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ جس طرح میں نے آپ لوگوں کی جنسی کہانیاں مزے لے لے کر پڑھی ہیں ویسے ہی آپ لوگ بھی مجھ پہ گزرے یہ جنسی تجربات ایک کہانی کی شکل میں پڑھ کر انجوائے کریں جیسے کہ میں آپ کی کہانیاں پڑھ کر کیا کرتی تھی ۔یہاں میں آپ لوگوں سے ایک بات کو ضرور شئیر کرنا چاہوں گی اور وہ یہ کہ اس کے باوجود کہ میں ایک جنس پرست اور شہوت کی ماری ہوئی عورت ہوں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ میرا تعلق ایک ایسے کٹر قسم کے مذہبی گھرانے سے ہے کہ جہاں پر جنس کو ایک شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے لیکن جیسا کہ آپ لوگ اس بات سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ سیکس اور خاص کر شہوانی جزبات کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ آپ کا تعلق کس گھرانے سے ہے؟ آپ مزہبی لوگ ہیں یا آذاد خیال ؟ آپ اچھے ہیں یا برے۔یہاں تو جب شہوت زور پکڑتی ہے تو یہ سب باتیں خودبخود مائینس ہوتی چلی جاتی ہیں اور باقی رہ جاتی ہے بدن کی گرمی ۔۔۔جسے ٹھنڈا کرنے کے لیئے عورت کو کسی مرد کے موٹے ڈنڈے کی۔۔۔ اور مرد کو میرے جیسی کسی گرم اور چکنی عورت کی ضرورت پڑتی ہے ۔ہاں تو دوستو میں جس دور سے اپنی کہانی کا آغاز کرنے والی ہوں تب ہم ملتان اور لاہور کے درمیان ایک قصبہ نما شہر ۔۔۔یا شہر نما قصبے میں رہا کرتے تھے اور میں نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہ ایک لوئر مڈل کلاس گھرانہ تھا اور میں اس گھر میں پیدا ہونے والی میں سب سے پہلی اولاد تھی ابا کی تھوڑی سی زمین تھی جس پر کھیتی باڑی کر کے وہ ہم لوگوں کا پیٹ پالتے تھے
اسی طرح لوئر مڈل کلاس ہونے کی وجہ سے ہمارا گھر بھی چھوٹا سا تھا جس میں دو ہی کمرے تھے ایک میں ابا اور امی سوتے تھے جبکہ دوسرے کمرے میں ہم بہن بھائی سویا کرتے تھے پتہ نہیں کیوں مجھے بچپن سے ہی اپنے جنسی اعضاء میں ایک خاص دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور میں اکثر تنہائی میں ان سے کھیل کر حظ لیا کرتی تھی اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت مجھے اس بات کا قطعاً علم نہ تھا کہ جنس کیا ہوتی ہے؟ شہوت کس چڑیا کا نام ہے ؟ میں تو بس اپنے بدن۔۔۔ خاص کر اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ ۔۔۔ کی لکیر اور بدن کے اوپری حصے پر اُگنے والی چھوٹی چھوٹی چھاتیوں سے خوب کھیلا کرتی تھی ۔جس میں ۔۔۔ میں کبھی تو اپنی چوت کو مُٹھی میں پکڑ کر دباتی تھی اور کبیر اپنے سینے کے ابھاروں سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتی تھی اس کام میں مجھے ایک عجیب سی لزت ملتی تھی غرض کہ بچپن سے ہی مجھے شہوت کی لت لگ گئی تھی – فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت مجھے شہوت کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا جبکہ آج مجھے اچھی طرح سے پتہ ہے کہ سیکس کیا ہے اور شہوت ۔۔۔۔۔۔۔۔ شہوت کا تو مجھے اس قدر زیادہ پتہ ہے اور میں اس قدر شوت پرست ہوں کہ ۔۔۔میری سہلیاں اور خاص کر وہ لوگ جن کے ساتھ میرے خفیہ تعلق رہے ہیں ۔(یا ابھی تک ہیں ) وہ سب مجھے شہوت ذادی کہتے ہیں ۔ اسی لیئے میں نے رائیٹر سے اس کہانی کا نام بھی شہوت ذادی رکھنے کو کہا ہے۔
اس تمہدب کے بعد آیئے سٹوری کا آغاز کرتے ہیں۔ دوستو میرا نام تو آپ جان ہی گئے ہوں گے اب میں اپ کو اپنی جسمانی ساخت کے بارے میں کچھ بتاتی ہوں میرا رنگ سانولا ہے اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ سانولی رنگت میں بلا کی کشش ہوتی ہے چنانچہ میرا جسم بھی پرُ کشش اور نمکین ہے میرے سینے کے ابھار کوئی بہت بڑے نہیں ہیں ۔ بلکہ درمیانے سے ہیں۔جس کا مجھے بہت افسوس ہے کیونکہ مجھے موٹے ممے اچھے لگتے ہیں جہاں تک میری آنکھوں کا تعلق ہے تو ان کا رنگ کالا ہے ۔ اور یہ کافی بڑی بڑی اور چمکیلی واقعہ ہوئی ہیں بچپن سے ہی میری دوست انہیں ساحر آنکھیں کہتے ہیں اور ٹھیک کہتی تھیں کہ ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ۔۔۔۔۔ ہزاروں ہیں ۔۔اسی لیئے ان آنکھوں سے وابستہ افسانے بھی ہزاروں ہیں جن میں سے چند ایک میں آپ سے شئیر کرنے والی ہوں ۔۔۔
مزہبی ہی نہیں بلکہ کٹر مزہبی گھرانے کی فرد ہونے کی وجہ سے میں برقعہ اوڑھتی ہوں عام طور پر میرا پورا جسم برقعے میں لپٹا ہوتا ہے اور پورا جسم برقعہ میں ہونے کی وجہ سے صرف میری آنکھیں ہی برقعے سے باہر ہوتی ہیں ۔۔۔۔ اور ان باہر رہ جانے والی آنکھوں سے ۔۔۔۔۔سامنے والے پر کیسے غضب ڈھایا جاتا ہے ۔۔۔ یہ کام مجھے خوب آتا ہے ۔۔۔ اسی لیئے تو کہتی ہوں کہ ۔۔ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزراوں ہیں ۔۔۔۔۔ جب میں سکول جانے لگی تھی تو میرے ساتھ میرے چاچے کی بیٹی جو کہ عمر میں مجھ سے تھوڑی کم تھی لیکن عمر میں کم ہونے کے باوجود بھی اسے میرے ساتھ ہی داخل کروا دیا گیا تھا کہ سنگ رہے گا۔۔۔ ایک ہی سکول میں داخل ہونے کی وجہ سے میری ہم جماعت بھی تھی اور ۔۔۔پھر۔۔۔۔کچھ عرصہ بعد وہ میری سب سے پہلی ہم راز بھی بن گئی تھی ۔۔ کلاس میں بھی ہم دونوں ایک ساتھ ہی بیٹھا کرتی تھیں میری طرح وہ بھی ایک شہوت کی ماری ہوئی لڑکی تھی لیکن ہم دونوں ہی اس بات سے لاعلم تھیں یہاں میں ایک بات کا اعتراف کرنا چاہتی ہوں کہ مجھ سے چھوٹی ہونے کے باوجود بھی ۔۔۔وہ مجھ سے زیادہ بولڈ تھی۔۔۔۔۔جبکہ میں ڈرپوک اور میسنی ٹائپ کی لڑکی تھی۔۔۔
سکول میں داخل ہونے کے کافی عرصہ بعد ۔۔۔۔۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ سکول میں آدھی چھٹی تھی اور ہم دونوں سکول کے گراؤنڈ کے ایک کونے میں واقعہ ٹاہلی کے درخت کے نیچے بیٹھی گپیں لگا رہیں تھی کہ اچانک ہی تفریج ختم ہونے کی گھنٹی بجی ۔۔۔ گھنٹی کی آواز سن کر عاشی ایک دم سے اوپر اُٹھی اور میں ابھی اُٹھنے والی تھی کہ اچانک میری نظر عاشی کی شلوار پر پڑی تو وہ مجھے نیچے سے کافی زیادہ پھٹی ہوئی نظر آئی ۔۔۔ جس سے مجھے عاشی کی سفید گانڈ اور بغیر بالوں والی چوت کی ایک جھلک نظر آئی۔۔۔ یہ دیکھ کر میں اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور جلدی سےاس کی شلوار میں پھٹی ہوئی جگہ پر ہاتھ لگا دیا۔۔۔ عاشی جو اس وقت زمین سے اُٹھ رہی رہی تھی میرے ہاتھ لگانے سے ایک دم ساکت ہو گئی اور میری طرف دیکھ کر ہنسی اور کہنے لگی ۔۔۔ ۔۔یہ کیا کر رہی ہو صبو کی بچی ؟ تو میں نے بھی اس کو ہنستے ہوئے جواب دیا کہ یار تیری چٹی بنڈ دیکھ کر میں رہ نہ سکی اور اس پر ہاتھ لگا دیا۔۔۔ میری بات سن کر وہ بجائے ناراض ہونے کے ۔۔۔۔ہنس کر بولی۔۔۔بڑی حرامن ہے تو ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ کلاس میں جا نے کے لیئے کھڑی ہو گئی میں بھی اُٹھی اور اس کے ساتھ کلاس روم کی طرف چلنے لگی۔۔۔ راستے میں ۔۔۔میں نے ویسے ہی اس سے مذاقاً کہا عاشی ! دس تیری سُتھن دا لنگار کنے لایا اے( عاشی یہ بتاؤ کہ تمہاری شلوار کس نے پھاڑی ہے ؟) میری بات سن کر اس کے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگی ۔۔ تم تو جانتی ہی ہو یار کہ ہمارا تعلق ایک نیک اور شریف گھرانوں سے ہے ۔۔اور اسی وجہ سے سارا گاؤں ہماری بہت عزت کرتا ہے اور اس اس عزت اور احترام کی وجہ سے خاص کر ہماری عمر کے لڑکے تو ہماری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ہیں ۔چنانچہ ایسے حالات میں ۔۔۔۔ ۔تم ہی بتاؤ کہ ہماری کس نے پھاڑنی ہے؟ ۔عاشی ٹھیک کہہ رہی تھی واقعہ ہی پورے گاؤں میں ہمارے گھرانے کے بارے میں یہی صورتِ حال تھی
۔۔لیکن عاشی کے منہ سے یہ بات سن کر میں حیرت ذدہ رہ گئی تھی جبکہ دوسری طرف عاشی اپنی ہی دھن میں کہے جا رہی تھی کہ۔صبو تم تو جانتی ہی ہو کہ اب تو ہم چاہیں بھی تو ۔۔اس عزت و احترام کی وجہ سے گاؤں کا کوئی لڑکا ہمارے ساتھ یہ کام نہیں کر ے گا۔۔۔ ۔ اس لیئے چار و ناچار میں نے خود ہی اپنی شلوار پھاڑ دی ہے ۔۔۔ ۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے بڑی حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔شلوار پھاڑ دی لیکن کیوں؟ ۔۔۔یہ ۔۔یہ تم کیا کہہ رہی ہو عاشی؟ میری بات سن کر چلتے چلتے عاشی اچانک رُک گئی ۔۔۔۔اور میری طرف مُڑ کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُلٹا کہنے لگی ۔۔۔میں نے جو تم سے عزت والی بات کی تھی کیا وہ غلط تھی ؟ ۔۔ بات کرتے ہوئے اس نے کچھ اس انداز سے میری طرف دیکھا ۔۔ کہ میں گڑبڑا سی گئی۔اور ۔پھر اس کے بار بار پوچھنے پر میں نے بھی ایک ٹھنڈی سانس بھری اور اس سے کہنے لگی بات تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو عاشی۔۔۔ پھر میں نے اس کی طرف ترچھی نظروں سے دیکھا اور ہنستے ہوئے بولی۔۔۔۔ اچھا یہ بتا کہ تم نے اپنی شلوار کو کیوں پھاڑا ۔۔۔اور وہ بھی اتنا ذیادہ ؟؟؟؟؟؟ ۔میری بات سنتے ہی عاشی نے میری طرف دیکھ کر آنکھ مارتے ہوئے کہا ۔۔۔ ” یہ ایک کام کے سلسلے میں ” پھاڑی ہے صبو باجی ۔۔۔(عاشی جب بڑے مُوڈ میں ہو تو وہ مجھے باجی کہا کرتی تھی ورنہ صبو ہی کہتی تھی ) ۔۔۔ ۔۔۔اور ہنسے لگی۔۔ اس کی اس بات سے کہ ایک کام کے سلسلسہ میں ۔۔۔سُن کر میری دل چسپی اور بڑھ گئی اور میں نے اس سے پوچھا کہ بتا ۔۔ نا کہ وہ کام کیا تھا ؟ اتنے میں ہمارا کلاس روم آگیا تھا اس لیئے عاشی مجھ سے سرگوشی میں کہنے لگی یہ بات میں تم کو چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے بتاؤں گی۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ہم دونوں نے پکا سا منہ بنایا اور کلاس روم میں داخل ہو گئیں۔۔۔۔ ۔
چھٹی کے بعد جب ہم لوگ گیٹ سے نکلے تو میں نے عاشی سے کہا ہاں اب بتا کہ تم نے اپنی شلوار کو کس کام کے سلسلہ میں پھاڑا تھا ؟ ؟ میری بات سن کر عاشی نے ایک نظر پیچھے کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگی۔۔۔ یار مجھ سے بار بار نالا (آزار بند) نہیں کھولا جاتا اس لیئے میں نے تنگ آ کر نیچے سے شلوار پھاڑ دی تھی۔۔۔ اس کی یہ بات ٹھیک سے میرے پلے نہیں پڑی اس لیئے میں نے اس سے کہا ۔۔۔ میں سمجھی نہیں ؟ تب وہ چلتے چلتے ایک دم سے کھڑی ہو گئی اور پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ وہ اس لیئے صبو باجی ۔۔۔۔کہ ۔۔۔کہ مجھے اپنی ننگی چوت پر ہاتھ پھیرنے سے مزہ آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں حیران رہ گئی اور اس سے بولی ۔۔۔عاشی تم بین اپنے پھدی سے کھیلتی ہو تو وہ بڑے آرام سے کہنے لگی ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ کیوں ۔۔۔ پھر ایک دم چونک کر کہنے لگی ۔۔۔اوہ اچھا ۔۔۔ تو کیا تم بھی ؟ تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔میرا سر اثبات میں ہلتا دیکھ کر وہ ایک دم پُر جوش سی ہو گئی اور کہنے لگی۔۔۔ بڑی میسنی ہو تم ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا اسمیں میسنی والی کون سی بات ہے ؟۔ تو اس نے شرارت سے میری طرف دیکھ کر آنکھ مار دی اور کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صبو باجی آپ بھی میری طرح اپنی لکیر (پھدی) سے کھیلتی ہو ؟اس کی بات سن کر میں نے کہا تم ٹھیک کہہ رہی ہو تو وہ کہنے لگی ۔۔ اسی لیئے تم میں تم کو میسنی کہتی ہوں کہ تم آج تک اس بات کی ہوا بھی نہیں لگنے دی ۔ ۔۔
اور پھراس کے بعد اس نے مجھے اور میں نے اس کو بتایا کہ میں اپنی پھدی اور چھاتیوں کیسے کیسے چھو اور دبا کر مزہ لیتی ہوں ۔۔۔اور اس دوران اس نے مجھ سے پوچھا ۔۔۔ اچھا صبو! یہ بتاؤ۔۔۔ تیرا پانی نکلتا ہے؟ لیکن میں نے جواب دینے کی بجائے الُٹا اس سے پوچھا ۔۔۔۔ پہلاں توُں دس ( پلے تم بتاؤ) ۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔پہلے پہلے تو نہیں نکلتا تھا ۔۔لیکن جب سے ۔۔ کپڑے آنا (پیریڈز ) شروع ہوئے ہیں ۔۔۔ تب سے دانہ مسلنے سے میری پھدی پتلا پتلا پانی چھوڑتی ہے ۔۔ اس دن کے واقعہ کے بعد تو ہم دونوں ایک دوسرے کے اور بھی قریب آ گئیں تھیں ۔۔۔اور اب ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھُل کر ہر قسم کی باتیں شئیر کر لیتی تھیں۔۔۔ اسی دوران میں عاشی کے ممے اور بھی بڑے ہونے شروع ہو گئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی چھاتیاں ٹینس بال سے بھی بڑی ہو گئیں تھیں لیکن دوسری طرف عاشی کے مقابلے میں میری چھاتیاں ابھی بھی کافی چھوٹی تھیں ۔۔۔ اس لیئے میں اکثر ہی اس سے پوچھتی تھی کہ اس نے کیا طریقہ اختیار کی ہے کہ جس سے اس کی چھاتیاں اتنی بڑی ہو رہیں ہیں ۔۔۔ تو وہ ہنس کر کہتی میں بھی اپنی چھاتیوں کے ساتھ وہی کچھ کرتی ہوں کہ جو تم کرتی ہو ۔۔ مسلہ صرف یہ ہے کہ میرا جسم ایسا ہے پھر کہتی دیکھو نا میں تم سے کافی چھوٹی ہوں لیکن تمہارے مقابلے میں میرا جسم کتنا بھاری ہے اور دیکھنے میں ۔۔میں پوری رَن (عورت ) لگتی ہوں جبکہ میرے مقابلے دبلی پتلی ہونے کی وجہ سے تم ۔۔۔۔۔ ابھی تک ایک چھوٹی سی لڑکی لگتی ہوں ۔۔۔اس کے دلائل سن کر میں وقتی طور پرتو مطمئن ہو جاتی تھی لیکن اس کی چھاتیاں دیکھ کر میں پھر سے غیر مطئن ہو جایا کرتی تھی۔۔۔۔
ہماری ایک پھوپھو ساتھ والے گاؤں میں بیاہی ہوئی تھی۔۔۔ ایک دن صبع صبع اطلاع ملی کہ اس کی ساس فوت ہو گئی ہے چنانچہ ابا امی چاچا چاچی معہ چھوٹے بچوں کے ٹا نگہ کروا کے ساتھ والے گاؤں میں پرسہ دینے چلے گئے جبکہ مجھے اور عاشی کو نہ صرف یہ کہ سکول سے چھٹی کروا دی بلکہ یہ کہتے ہوئے ہمیں اپنے اپنے گھر میں ہی چھوڑ گئے کہ ہم دونوں پیچھے سے گھر کا خیال رکھیں ۔۔۔۔ مجھے جہاں سکول سے چھٹی کرنے کی خوشی ہوئی تھی وہاں میں اس بات پر بھی خوش تھی کہ آج گھر میں کوئی نہیں ہو گا اس لیئے آزادی کے ساتھ اپنے جنسی اعضاء کے ساتھ کھیل سکوں گی ۔۔چنانچہ ٹانگہ جانے کے کچھ ہی دیر بعد ۔۔میں نے اپنی شلوار کا نالا (آزار بند ) کھولا اور چارپائی پر بیٹھ کر اپنی چوت کو مسلنے لگی۔۔۔۔ ۔۔ اپنی پھدی کو مسلتے ہوئے اچانک ہی مجھے عاشی کا خیال آ گیا۔۔۔ اور اس خیال کا آنا تھا کہ میں نے جلدی سے اپنی شلوار کا نالا دوبارہ سے باندھا اور عاشی کے گھر کی طرف چل پڑی جو کہ ساتھ ہی (پڑوس) میں واقعہ تھا
اور ۔۔۔۔ ابھی میں نے اپنے دروازے کو کنڈی لگائی ہی تھی کہ پاس کے درازے سے مجھے عاشی نکلتی ہوئی دکھائی دی۔۔۔۔ وہ مجھے اور میں اسے دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔۔۔ اور پوچھنے پر وہ کہنے لگی کہ وہ میری ہی طرف آ رہی تھی ۔۔۔ پھر بولی۔۔۔۔ اب جبکہ تم نے اپنے گھر کو کنڈی لگا دی ہے تو تم ادھر ہی آ جاؤ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ اپنے دروازے سے اندر چلی گئی ۔۔۔۔ اپنے دروازے کو کنڈی تو میں پہلے ہی لگا چکی تھی اس لیئے اس لیئے جیسے ہی عاشی اپنے گھر کے اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔ اس کے چند ہی سکینڈ کے بعد میں بھی اس کے ہاں چلی گئی تھے اور جیسے میں نے اس کے دروازے کے اندر قدم رکھا تو میرے کانوں میں عاشی کی آواز سنائی دی ۔۔ صبو کنڈی لگا کے آنا ۔۔۔۔۔ چنا نچہ اس کے کہنے پرمیں نے اندر داخل ہو کر اس کے دروازے کو کنڈی لگا دی اور دیکھا تو سامنے برآمدے میں عاشی کھڑی میرا ہی انتظارکر رہی تھی۔۔۔ میں دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اس کے قریب پہنچی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔ تم کیوں میری طرف آ رہی تھی؟۔۔۔ تو اس نے بھی ترنت ہی جواب دیا ۔۔۔ کہ اسی کام کے لیئے جس کام کے سلسلے میں تم میری طرف آ رہی تھی ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے شرارت سے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ میں تو تم سے ملنے آ رہی تھی۔۔۔ میری بات سن کر وہ مسکرائی اور کہنے لگی۔۔۔۔میں بھی تو تم سے ملنے ہی آ رہی تھی ۔۔۔پھر اپنی ایک دائیں آنکھ دبا کر بولی ۔۔۔ مجھے خوب اچھی طرح سے پتہ ہے کہ تم کیوں آئی ہو اور اس کے ساتھ ہی اس نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔۔۔ اُس کے اس طرح گلے لگانے سے میرے سینے کے ساتھ اس کے موٹے ممے میری چھاتیوں کے ساتھ پریس ہو گئے ۔ اسے سینے سے سینہ لگانے سے میں گرم ہو گئی ۔۔۔۔اور اس سے بولی۔۔ عاشی مجھے تمہارے سینے پر لگے تمہارےموٹے ممے بڑے اچھے لگ رہے ہیں میری بات سنتے ہی عاشی نے ایک بار پھر اپنے مموں کو بڑی ذور سے میرے ساتھ پریس کیا اور پھر اپنی بڑی سی چھاتیوں کو میری چھاتیوں پر رگڑنی لگی۔۔ اس کے اس طرح چھاتی رگڑنے سے میرے اندر ایک انجانی سی کرنٹ دوڑنے لگی۔۔ اور میں مزے سے بے حال ہو کر تیزی سے سانس لینے لگی۔۔ میری یہ حالت دیکھ کر عاشی نے اپنی چھاتیوں کو میری چھاتیوں کےساتھ رگڑنا بند کر دیا اور ۔۔۔ کہنے لگی۔۔۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔۔صبو ۔۔۔ تم کو اتنا سانس کیوں چڑھا ہوا ہے ۔۔؟ تو میں نے اس کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ تمھاری رگڑائی سے مجھے بہت مزہ آ رہا ہے۔۔ میری بات سن کر اس نے میرے ایک گال کو چوما ۔۔۔ اور کہنے لگی ۔۔۔سچ کہہ رہی ہوں صبو ۔۔ اس طرح چھاتیاں رگڑنے سے ۔۔۔مجھے ۔ تمہارے چھوٹے چھوٹے گیند بھی بڑا مزہ دے رہے ہیں۔ ۔۔۔ تو میں نے ویسے ہی مستی سے اس سے پوچھا وہ کیسے؟ تو وہ کہنے لگی وہ ایسے صبو باجی۔۔۔۔۔ کہ میرے بڑے بڑے اور تمھارے چھوٹے چھوٹے ممے آپس میں ٹکرا کر ہم دونوں کے جسموں میں بڑی آگ بھر رہے ہیں ۔۔
۔۔ پھر عاشی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ کیا خیال ہے صبو ۔۔ اگر ہم اپنی اپنی قمیضیں اتار دیں تو؟ ۔۔ اس کی بات سن کر میں جو پہلے ہی کافی گرم ہو رہی تھی اس سے بولی۔۔۔ تو دیر کس بات کی ہے۔۔آج تو ہم خوب مستی کریں گی کہ نہ گھر والے نہ ما ں ۔۔پے ۔۔۔ہیں۔۔۔ میری بات سن کر وہ مجھ سے الگ ہوئی ۔۔۔ اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولی چلو اندر چل کر اپنی اپنی قمیضیں اتارتی ہیں ۔۔۔ چنانچہ ہم دونوں برآمدے سے کمرے میں داخل ہو گئیں –
اندر جاتے ہی میں نے اپنی قمیض اتار کر پلنگ پر پھینک دی ۔۔۔۔اور عاشی کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔ جو بڑے غور سے میری ننگی چھاتیوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اور اس نے ابھی تک اپنی قمیض کو نہ اتارا تھا۔۔۔ اسے یوں کھڑے دیکھ کر میں نے عاشی کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔۔۔ چل چھیتی کر ( جلدی کرو)۔۔۔ میری آواز سن کر عاشی ایک دم سے چونک پڑی اور ۔۔۔۔ میری طرف دیکھ کر بولی۔۔۔ سچ کہہ رہی ہوں صبو ۔۔۔۔ تمہارے سینے پر لگی یہ چھوٹی چھوٹی چھاتیں دیکھنے میں بڑا مزہ کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ آگے بڑھی ۔۔۔۔اور اس نے میری ننگی چھاتیوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا۔۔۔ اور انہیں ہولے ہولے دبانے لگی۔۔۔ مجھے اپنی چھاتیوں پر اس کے ہاتھوں کا لمس بہت ہی اچھا رہا تھا اور مزے کے مارے بے اختیار میرے منہ سے ۔۔۔ہائے ۔۔ہائے کی آوازیں نکل رہیں تھیں جسے سن کر وہ بھی مست ہو گئی ۔۔اور میری چھوٹی چھوٹی چھاتیوں کو دباتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔ مزہ آ رہا ہے ؟ تو میں نے ایک گرم آہ بھرتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔۔ کیا بتاؤں عاشی ۔۔۔ تمھارے ہاتھ لگانے سے مجھے کتنا سرُور مل رہا ہے میری بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔ صبو ۔۔ تمہاری چھاتیوں کو پکڑنے سے مجھے بھی بڑا صواد (مزہ) آ رہا ہے ۔۔اور پھر بڑی مستی سے میری چھاتیں کو دبانے لگی۔۔۔۔۔ اور کچھ دیر تک وہ میری چھاتیوں کو دباتی رہی ۔۔۔ پھر اچانک ہی مجھ پر شہوت کا غلبہ بڑھ گیا اور میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی چھاتیوں کو پکڑ لیا اور کہنے لگی۔۔۔۔ توں وی اپنے ممے ننگے کر نا ( تم بھی اپنی چھاتیاں ننگی کرو ۔۔نا) میری شہوت بھری بات سن کر وہ بولی ۔۔۔ میں اپنی چھاتیاں ننگی بھی کروں گی اور تم سے دبواؤں گی بھی ۔۔۔۔ لیکن ابھی مجھے اپنی چھایتوں کو دبانے کا مزہ تو لینے دو ۔۔ لیکن میں نے اس کی بات نہ سنی اور ہاتھ بڑھا کر اس کے بڑے بڑے گیندوں کو اپنی مُٹھی میں پکڑا اور ۔۔۔ بڑی ذور سے دبا دیا۔۔۔۔۔ اور میر ا خیال ہے کہ جزبات کی شدت میں ۔۔۔ ا ٓکر میں نے اس کی چھاتیوں کو کچھ زیادہ ہی زور سے دبا دیا تھا ۔۔تبھی میں نے عاشی کو چیخ سنی ۔۔۔۔ہائے میں مر گئی ۔۔اور ساتھ ہی کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ ہولی دبا ۔۔۔حرام دییئے
۔۔۔۔لیکن چونکہ اس وقت مجھ پر پوری طرح سے شہوت سوار تھی اس لیئے میں نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی ۔۔اور اس کی چھاتیوں کو اپنی مُٹھی میں پکڑ کر مسلسل دباتی رہی۔۔۔ کچھ دیر تک تو وہ مجھ سے ہولی ۔۔۔۔ نی ہولی حرام دیئے ۔۔۔ہولی۔۔۔دبا ۔۔کہتی رہی۔۔۔ پھر اس پر بھی شہوت سوار ہو گئی ۔۔۔اور اس دفعہ جب میں نے اس کی چھاتیوں کو دبایا تو ۔۔۔ عاشی نے ایک سسکی سی لی ۔اس کے جو ہاتھ میری چھاتیوں پر دھرے تھے اس نے ایک دم سے انہیں وہاں سے ہٹا لیا۔۔۔ اور میرے ساتھ چمٹ گئی ۔۔۔اس کا جسم بری طرح سے کانپ رہا تھا ۔۔۔اور وہ میرے ساتھ چمٹی ہوئی شہوت ذدہ لہجے میں کہہ رہی تھی ۔۔۔ہائے ۔نی مار سڑیا ای ۔(ہائے تم نے مجھے مار دیا) بڑا صواد آ رہیا اے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صبو ہولی دب ۔۔نا ۔۔توں بڑی حرامن ایں ۔۔۔حرام دیئے بس کر ۔۔اور اس کے ساتھ ہی عاشی نے اپنے نچلے دھڑ کو میرے ساتھ جوڑ لیا اور ۔۔۔ میری ران کے ساتھ اپنی پھدی کو جوڑ کر رگڑنی لگی۔۔ اُف اس وقت اس کی نیچے والی چیز بہت گرم ہو رہی تھی اور اس کی چوت کا میری ران کے ساتھ جُڑنا تھا کہ ۔۔ خود میرے اپنے اندر۔۔۔ خاص طور پر میری چوت میں بھی ایک ہلچل مچنا شروع ہو گئی۔اور مجھے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے میری دونوں رانوں کے بیچ والے حصے میں آگ لگا دی ہو ۔۔ چنانچہ میں نے اس آگ کی تپش سے مجبور ہو کر عاشی کا ہاتھ پکڑا اور شلوار کے اوپر سے ہی اپنی پھدی پر رکھ دیا۔۔۔عاشی نے اپنے ہاتھ پہ جیسے ہی میری چوت کو محسوس کیا تو اس نے ایک دم سے میری چوت کو اپنی مُٹھی میں ۔پکڑا اور اسے دبانے لگی۔۔۔۔ اس کے یوں دبانے سے میرے منہ سے ایک سریلی سی چیخ نکلی۔۔اوہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔ ۔۔ اور میں نے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیا اور اسے اپنی چوت کی طرف دبانے لگی۔۔۔۔ ۔۔۔وہ میرا مطلب سمجھ گئی اور اپنی چوت کو میری ران پر رگڑتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ میرے ہتھ دا صواد آیا ای ( میرے ہاتھ کا مزے آیا ہے) تو میں نے جزبات سے بھر پور مزے میں اس سے کہا ۔۔ ڈاھڈا سواد آیا اے ۔۔توں ہور دب ۔۔۔ ( بہت مزے آ یا ہے تم میری پھدی کو اور بھینچو ۔) اور عاشی نے ایسا ہی کیا ۔۔۔اور وہ بار بار میری پھدی کو اپنی مُٹھی میں لے کر بھینچنے لگی۔۔۔۔۔
اور اس کےساتھ ساتھ عاشی اپنی پھدی کو میرے پھدی کے ساتھ جوڑے اوپر نیچے ہو رہی تھی اور سسکیاں لیتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ۔۔ بڑا مزہ آ رہا ہے صبو۔۔۔ میری چھاتیوں کو اور زور سے دبا ؤ ۔۔ لیکن اس وقت ہم دونوں کے جسم ایک دوسرے میں پیوست ہو چکے تھے ۔۔۔ اور اس حالت میں مجھ سے اس کے مموں کو دبانا ممکن نہ تھا۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف عاشی بار بار مجھے ایک ہی جملہ کہہ رہی تھی ہور ۔۔۔دبا ۔۔ میری چھاتیاں ہور دبا۔۔۔ لیکن اس کا جسم میرے ساتھ جُڑے ہونے کی وجہ سے میرے لیئے اس کی چھاتیوں کو دبانا ممکن نہ تھا اس لیئے میں نے اس سے کہا کہ اپنا جسم تھوڑا پیچھے کر تو میں تیری چھاتیوں کو دبانے کے قابل ہوں گی ۔۔۔۔میری بات سن کر اس نے اپنے اوپری دھڑ کو تھوڑا الگ کیا اور پھر تھوڑا پیچھے ہٹ کر اس نے اپنی قمیض بھی اتار دی اور اب میرے سامنے عاشی کی ننگی چھاتیاں آ گئیں تھیں ۔۔۔۔۔ اس کے گورے گورے جسم پر بڑے بڑے ممے بڑے ہی اچھے لگ رہے تھے ۔۔۔ اس لیئے میں آگے بڑھی اور اس کا ایک ممے کو اپنے ایک ہاتھ میں پکڑ لیا اور اس کے چھوٹے چھوڑے نپلز کو اپنی انگلیوں میں پکڑ لیا اور ان کو دبانے لگی۔۔ جبکہ دوسری طرف عاشی میری پھدی کو اپنی مُٹھی میں لیئے مسلسل بھینچ رہی تھی۔۔ اور ہم دونوں دیوانہ وار اپنے اس جنسی عمل میں مشغول تھیں کہ کچھ ہی دیر بعد ہم دونوں کے سانس چڑھنے لگے۔۔۔۔اورہمارے منہ سے بے ربط قسم کی باتیں نکلنے لگیں ۔۔۔۔سس۔۔سس۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔۔۔۔۔اوہ۔۔اوہ ہ ہ ۔ اور پھر جلد ہی ہم دونوں کی چوتوں میں لگی آگ سرد ہونا شروع ہو گئی ۔۔۔ اور پھر ہم دونوں کی پھدیوں میں پانی آتے ہی عاشی نے میری چوت اور میں نے اس کی چھاتیوں کو اپنے ہاتھوں سے چھوڑا ۔۔۔اور ایک دوسرے کے ساتھ گلے لگ گئیں اور جھٹکے مارتے ہوئے اپنی اپنی پھدیوں سے پانی چھوڑنے لگیں۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔ پھر جب ہماری پھدیوں سے پانی نکلنا رُک گیا ۔۔۔ تو عاشی مجھ سے الگ ہو گئی ۔۔اور پاس ہی پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگی۔۔ جبکہ اس دوران میں بھی اپنے سانس درست کرنے لگی۔۔۔
جب ہمارے سانس کچھ معمول پر آ گئے تو عاشی کہ جس کی نظریں مسلسل میری دونوں ٹانگوں کے بیچ میں تھیں نے مجھے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا اور جب میں اس کے قریب گئی تو اس نے ڈائیرکٹ میری پھدی پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ بڑا پانی وگھایا ای۔۔۔(بہت پانی چھوڑا ہے) عاشی کی بات سن کر میں نے اس سے کہا کیوں تیری پھدی کُج نہیں چھڈیا ؟ ( تمھاری چوت نے کوئی پانی نہیں چھوڑا ) میری بات سن کر عاشی چارپائی سے اُٹھی اور اپنی چوت والی جگہ سے شلوار کو دکھاتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ چھوٹی تو میں بھی ہوں لیکن جتنا پانی تمھاری چوت نے چھوڑا ہے اتنا میری پھدی نہیں چھوڑ سکی ۔۔ اور پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری پھدی میری پھدی سے زیادہ گرم ہے ۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا و ہ کیسے؟؟ تو وہ بڑی شوخی سے بولی ۔۔وہ ایسے صبو باجی کہ تمہاری چوت میں زیادہ گرمی تھی اس لیئے اس نے زیادہ پانی چھوڑا ۔۔۔ جبکہ گرم تو میں بھی تمہارے ہی جتنی ہوں ۔۔۔ پر شاید میری چوت تمہاری چوت کے مقابلے میں اتنی زیادہ گرم نہیں ہے اس لیئے اس نے کم پانی چھوڑا ہے۔۔۔۔پھر کہنے لگی ۔۔۔شلوار اتار کے زرا اپنی پھدی تو دکھاؤ۔۔۔اور میں نے جھٹ سے اپنی شلوار اتار دی۔۔۔۔ اور اس کے قریب جا کر کھڑی ہو گئی ۔اس دوران وہ دوبارہ سے چارپائی پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔ چنانچہ جیسے ہی میں اس کے قریب پہنچی تو وہ میری ننگی چوت دیکھ کر خاص کر میری چوت پر اُگے گھنے جنگل کو دیکھ حیران رہ گئی اور ان بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگی۔۔تیرا بھلا ہو جائے
۔۔۔۔ ان کو صاف کیوں نہیں کرتی؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔کہ اصل میں مجھے چوت پر بال رکھنا بہت پسند ہیں میری بات سن کر عاشی نے بڑی حیرانی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ اس کی کوئی خاص وجہ؟ تو میں نے کہا کہ ہاں ۔۔۔۔ اس کی وجہ وہ بُو یا مہک ہے جو پسہنی آنے پر میری چوت سے آتی ہے ۔۔۔ یہ سنتے ہی عاشی نے میری کمر پرہاتھ رکھا اور میری چوت کو اپنے بلکل نزدیک کر لیا اور پھر اپنی ناک کو عین میرے بالوں والی پھدی کے درمیان رکھ دیا ۔۔۔اور سونگھنے لگی۔۔۔۔ کچھ دیر تک وہ میری چوت کی بوُ/مہک کو سونگھتی رہی پھر اس نے سر اُٹھا کر ایک نشیلی سی نظر سے میری طرف دیکھااور کہنے لگی۔۔۔۔ بات تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔ تمہاری چوت کی بو ایسے ہےکہ جیسے کوئی نشہ آور چیز ہو اور ایک بار پھر اس نے اپنی ناک میری بالوں والی چوت پر رکھ دی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی۔۔۔
پھر جب اس نے جی بھر کر میری چوت کو مہک کو سونگھ لیا تو اپنا ناک وہاں سے ہٹا کر بولی۔۔۔ ۔۔۔بڑی بات ہے یار ۔ بڑا عجیب سا نشہ ہے تیری پھدی میں ۔۔۔ اور میری چوت کے بالوں سے کھیلتے ہوئے کہنے لگی ۔۔ چوت پر اتنے بڑے بڑے بالوں سے تم کو انت کال نہیں آتی؟ تو میں نےمسکراتے ہوئے جواب دیا کہ نہیں انت کال نہیں آتی بلکہ بال جتنے بڑے ہوں مجھے اتنا زیادہ مزہ آتا ہے۔۔تو وہ میرے بالوں پر انگلی پھیرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ ہاں یار یہ چوت کے بال نہیں ہیں بلکہ پوری مزے کی فیکڑی ہیں۔۔۔
تب میں نے عاشی کا ہاتھ پکڑا اور اسے چارپائی سے اُٹھاتے ہوئے بولی۔۔۔ میری پھدی تو تم نے دیکھ لی اور میری چوت کے بالوں سے کھیل بھی لیا۔۔۔۔چل اب اپنی بھی دکھا ۔۔۔ میری بات سنتے ہی عاشی فوراً ہی اپنی جگہ سے اُٹھی اور اپنی شلوار اتارتے ہوئے مجھے چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔ میں جیسے ہی چارپائی پر بیٹھی عاشی اپنی ننگی پھدی لیکر میرے سامنے آ گئی اور اپنی پھدی کو میرے سامنے کرتے ہوئےبولی ۔۔لو جی بادشاہو ہماری چوت کا نظارہ بھی کر لو۔۔۔ لیکن اس کے یہ بات کہنے سے پیشتر ہی میں اس کی چوت کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔چونکہ عاشی موٹاپے کی طرف مائل بھرے بھرے جسم کی مالک لڑکی تھی ۔۔۔۔اس لیئے عاشی کی چوت کافی موٹی اور ابھری ہوئ تھی اور اس کے ساتھ ساتھ میرے برعکس اس کی چوت بالوں سے بلکل پاک تھی ۔۔۔ اس کی پھدی کے دونوں ہونٹ موٹے اور آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔۔ میں نے اس کی چوت پر ہاتھ لگایا تو اس کی چوت کا اوپری حصہ بڑا ہی نرم و ملائم تھا ۔۔۔ میں نے ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی کہ۔عاشی تیری پھدی تو بڑی مکھن ملائی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ پر اتنی اچھی اور خوشبودار نہیں جتنی تمہاری ہے تو میں نے اس سے کہا کہ پھدی کو خوشبودار کرنا کون سا مشکل کام ہے بس تم بھی میری طرح اس پر بال رکھ لو تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ یار رکھ تو لوں۔۔۔۔ پر ۔۔ مجھے اپنی پھدی پر اُگے ہوئے بال ذرا بھی اچھے نہیں لگتے اس لیئے میں ہر ہفتے اس کی صفائی کرتی ہوں۔۔۔عاشی کی پھدی پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے بے دھیانی میں جیسے ہی میری انگلیانوں نے اس کے موٹے دانے کو چھوا تو اچانک عاشی کے منہ سے ایک سسکی سی نکلی جسے سن کر میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ دانے پر ہاتھ پھیرنا اچھا لگتا ہے تو وہ کہنے لگی۔۔۔ اچھا نہیں بہت اچھا لگتا ہے ۔۔۔
عاشی کے منہ سے یہ بات سنتے ہی میں نے اس کے بڑے سے دانے کو اپنی انگلیوں کی مدد سے مسلنا شروع کر دیا۔۔۔ایسا کرتے ہی اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ کیوں مزہ نہیں لینا ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ لینا ہے ضرور لینا ہے ۔۔۔ پر تم سوکھی انگلیوں سے ہی لگی ہوئی ہو ۔۔۔ایسے مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔۔ اپنی انگلیوں کو تھوڑا گیلا تو کر لو۔۔۔۔۔۔ یہ سنتے ہی میں نے اپنی انگلیوں کو منہ میں ڈالا اور پھر ان کو تھوک سے اچھی طرح تر کرنے کے بعد منہ سے باہرنکالا ۔۔ یہ دیکھتے ہی عاشی نےبھی اپنی دونوں ٹانگوں کو تھوڑا اور چوڑا کرلیا ۔۔۔اوراپنے دانے کو میرے سامنے کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ چل رگڑ۔۔۔۔ یہ سنتے ہی میں نے اپنی انگلیوں سے اس کے دانے کو رگڑنا شروع کر دیا ۔پہلے آہستہ آہستہ انگلیوں کو چلایا ۔۔۔ پھر ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مجھے جوش آ گیا اور میں نے تیزی کے ساتھ اس کے دانے کی رگڑائی شروع کردی۔۔۔۔اور رگڑ رگڑ کر اس کا دانہ سرخ کر دیا۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی عاشی کے منہ لزت آمیز سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں اور وہ اپنی چوت کو میری انگلیوں کے ساتھ مزید جوڑنے لگی۔۔۔ اسی اثنا میں اس کے دانے پر رگڑائی سے جب میری انگلیاں خشک ہو گئیں تو عاشی نے میری انگلیوں کو پکڑ کر اپنی چوت کے لبوں کے اندر کر دیا اور کہنے لگی۔۔۔۔تمہارے تھوک سے زیادہ یہاں پر چکناہٹ موجو د ہے اس لیئے اسے استعمال کر ۔۔۔۔ پھر میں نے اس کے کہنے پر اپنی دو انگلیوں کو اس کی چوت کے پانی میں ڈبویا اور کچھ چکناہٹ اس کے دانے پر لگائی اور پھر ۔۔۔۔ مسلسل رگڑائی شروع کر دی۔۔رگڑائی کے کچھ ہی دیر بعد اس کے جسم میں اکڑ پیدا ہوئی اور ایک دفعہ پھر اس کی چوت نے پتلا پتلا پانی چھوڑ دیا۔۔۔
اس کے بعد اسی طرح اس نے بھی میری چوت کی رگڑائی کی۔۔۔اور اس دن ہم نے ایک دوسرے کے جسموں کے ساتھ خوب انجوائے کیا۔۔
اس طرح ہم بڑی ہوتی گئیں اور میں اس وقت کلاس 9 میں پڑھتی تھی کہ جب ساتھ کے گاؤں سےایک زرینہ نامی لڑکی ہمارے سکول میں داخل ہوئی کیونکہ اس کے گاؤں کا سکول مڈل تک تھا اب وہ مزید پڑھائی کے لیئے ہمارے سکول میں داخل ہو گئی تھی جو کہ ایک ہائی سکول تھا ۔۔ زرینہ کافی گوری چٹی اور خاصی خوش شکل سی لڑکی تھی ۔۔لیکن اس کے بارے میں اڑتے اڑتے پتہ چلا تھا کہ وہ کچھ اچھے کردار کی مالک نہ تھی کلاس فلیو ہونے کی وجہ سے میری اور عاشی کی اس کے ساتھ گپ شپ کی حد تک سلام دعا تھی لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے کہ وہ مجھ سے دوستی کرنے کی بڑی کوشش کرتی تھی ۔۔ میں بھی اس بات چیت تو ضرور کرتی تھی لیکن دوستی بڑھانے کی کبھی کوشش نہ کی تھی۔۔۔ ویسے بھی میری اور عاشی میں دوستی ہونے کی وجہ سے ہم لوگ کسی اور کی طرف کم ہی کی طرف متوجہ ہوتی تھیں۔۔۔
اس کے باوجود پتہ نہیں کیوں وہ لڑکی میرے ساتھ کیوں دوستی کرنا چاہتی تھی۔۔۔ایک دفعہ ایسا ہوا کہ عاشی کچھ بیمار ہو گئی اور اسے سکول سے اکھٹے چار پانچ دن چھٹی کرنا پڑی۔۔۔ اب میں اکیلی ہی گھر سے سکول آنے لگی ۔۔ایک دن اس زرینہ نے مجھ سے پوچھا کہ ۔۔۔ یار آج کل عاشی تمہارے ساتھ نہیں نظر آ رہی؟ تو میں نے اس سے کہا کہ وہ بیمار ہے اور تین چار دن تک سکول نہیں آ سکے گی۔۔تب وہ کہنے لگی ۔۔۔ صبو جی کیا عاشی جگہ میں تمہارے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں ؟ تو میں نے کہا اس میں پوچھنے والی کون سی بات ہے تم جہاں مرضی ہے بیٹھ سکتی ہو ۔۔۔۔ اوراس طرح وہ میرے ساتھ بیٹھنے لگی ۔۔کچھ دن بعد میں نے محسوس کیا کہ زرینہ اکثر خالی پیریڈ یا تفریع کے وقت چوری چوری کوئی نہ کوئی کتاب پڑھ رہی ہوتی تھی۔۔۔ ایک دن میں نے اس سے گپ شپ کے دوران بائی دی وے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔کہ زرینہ یہ تم چور ی چوری کیا پڑھتی رہتی ہو؟ میری بات سن کر پہلے تو وہ تھوڑا سا گھبرائی۔۔ پھر میرے اصرار پر کہنے لگی۔۔۔وہ یار ۔۔مجھ سے گھر جا کر پڑھنا پسند نہیں اس لیئے میں یہاں خالی پیریڈ یا تفریع کے وقت ہوم ورک کر لیتی ہوں ۔۔اس کی باتوں سے صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے اس لیئے میں نے اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔۔ زرینہ بی بی جھوٹ نہ بولو ۔۔۔۔ ہوم ورک تو کاپی پر کیا جاتا ہے اور تم ۔۔ کتاب پڑھتی رہتی ۔۔۔ یہ کیا چکر ہے؟ میری بات سن کر اس نے ایک گہرا سانس لیا اور کہنے لگی۔۔۔ میں ایک شرط پر تم کو یہ سب بتاؤں گی ۔۔۔ کہ اگر تم کسی سے بھی اس بات کا ذکر نہیں کرو گی؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ میں سے وعدہ کرتی ہوں کہ عاشی کے علاوہ میں اس بات کا کسی سے بھی تزکرہ نہیں کروں گی۔۔۔۔ میری بات سنتے ہی وہ مسکرائی اور کہنے لگی تم نے اس ماں کو ضرور بتانا ہے ؟ تو میں نے کہا ہاں یار ۔۔۔جیسا کہ تم جانتی ہو کہ وہ میری رشتے دار ہونے کے ساتھ ساتھ میری بیسٹ فرینڈ بھی ہے۔ اس لیئےاس ماں کو بتانا بہت ضروری ہے ورنہ تمہیں تو پتہ ہے کہ ایسے مجھے روٹی ہضم نہیں ہو گی ۔۔ میری بات سن کروہ کسی سوچ میں ڈوب گئی پھر تھوڑی دیر بعد کہنے لگی ۔ چل جیسے تیری مرضی ہے ۔۔۔ویسے تم کرو۔۔۔۔ ۔۔
تفریع کے وقت وہ مجھے سکول کے گراؤنڈ کے آخیر میں لگی ٹاہلی کے نیچے لے گئی ۔۔۔ اور وہاں بیٹھتے ہی میں نے اس سے کہا ہاں اب بول یہ کیا چکر ہے؟ میری بات سنتے ہی پہلے تو اس نے بڑی راز داری سے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔پھر کہنے لگی۔۔۔ وعدہ ہے نا کہ تو عاشی کے علاوہ اور کسی کو بھی یہ بات نہیں بتائے گی ؟تو میں نے اس سے کہا کہ یار ایک دفعہ وعدہ کر جو لیا ہے۔۔۔ اور پھر اس سے بولی۔۔ اب خدا کے اور سپنس نہ ڈال ۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔ بات سپنس کی نہیں ہے صبو جی ۔۔۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔۔تم نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا صبو ۔۔ خالی پیریڈ میں ۔۔۔ میں کورس کی کتاب نہیں بلکہ سیکسی کتابیں پڑھتی ہوں ۔۔۔ سیکسی کتاب کے بارے میں سن کر میرا دل دھک دھک کرنے لگا اور میں نے بڑی یقینی سے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔تُو ۔۔تو ٹھیک کہہ رہی ہے نا ۔۔۔مذاق تو نہیں کر رہی ۔۔تو وہ ایک دم سنجیدہ ہو کر بولی ۔۔ نہیں قسم سے میں بلکل ٹھیک کہہ رہی ہوں پھر کہنے لگی۔۔دیکھو تمہارے پوچھنے پر میں نے تم کو یہ سب بتایا ہے اب خدا کے لیئے ۔۔ ۔۔ مجھے سمجھانے کی کوشش نہ کرنا کہ یہ بری بات ہے ۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ کیونکہ مجھے سیکسی کتابیں بڑھنا بہت اچھا لگتا ہے ۔۔ اس کے منہ سے سیکسی کتابوں کا ذکر سن کر میرے اندر ایک ہل چل سی مچ گئی تھی کیونکہ ۔۔۔ میں نے اور عاشی نے ان کتابوں کے بارے میں سُن تو رکھا تھا مگر یہ کہاں سے ملتی ہیں اس بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہ تھا اور اگر پتہ بھی ہوتا تو ہماری اتنی جرات نہ تھی کہ ہم لوگ ایسی کتابوں کو منگوا کر پڑھ سکتیں ۔۔۔اب میں نے زرینہ کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ اچھا میں تمہیں نہیں سمجھاتی لیکن کیا تم یہ بات بتا سکتی ہو کہ تم اس قسم کی کتابیں تم لاتی کہاں سے ہو؟
میری بات سن کر وہ کہنے لگی بس مل جاتی ہیں ۔۔۔ لیکن اس کی یہ بات مجھ سے ہضم نہ ہوئی اورپھر میرے کریدنے پر اس نے بتلایا کہ اس قسم کی کتابیں اس کا ایک” یار” (لور-محبوب) مہیا کرتا ہے۔۔۔ جو کہ اس کے گاؤں کے نمبردار کا بیٹا ہے۔۔یار کا ذکر سن کر میں بڑی حیران ہوئی اور اسی حیرانی میں اس سے کہنے لگی ۔۔تت تمہارا کوئی یار بھی ہے؟ میری بات سن کر وہ ہنس پڑی اور کہنی لگی ۔۔ اوئے مولوی صاحب ۔۔۔۔۔ نہ صرف میرا بلکہ اس کلاس میں آدھی لڑکیوں نے یار بنائے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر بولی ۔۔۔ ہاں پوری کلاس میں اگر کوئی واقعی ہی شریف بیبیاں ہیں تو وہ تم دونوں بہنیں ہو ورنہ تو جن کے یار نہیں ہیں وہ بھی ادھر ادھر منہ ضرور مار لیتی ہیں۔۔پھر آنکھ مار کر بولی کہ کیا خیال ہے صبو جی تم یہ کتاب پڑھنا پسند کرو گی؟ اس کی بات سن کر میرا سانولا چہرہ ایک دم سرخ ہو گیا اور اندر سے میرا جی چاہا کہ ابھی کی ابھی وہ مجھے یہ کتاب لا دے لیکن ۔۔۔ بھرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے اس لیئے میں بظاہر نخرہ کرتے ہوئے بولی۔۔۔ نہیں بابا ایسی گندی کتابیں مجھے نہیں پڑھنی ۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ یار ایک بار پڑھ کر تو دیکھ تیرے چودہ طبق نہ روش ہو گئے تو پھر کہنا ۔۔۔۔ پھر ۔۔کچھ سوچ کر بولی ۔۔۔چل کتاب نہ پڑھ ۔۔ایسا کرتی ہوں میں تم کو فوٹوؤں والا رسالہ لا دوں گی ۔۔۔تم اس کو دیکھنا ۔۔۔۔ اور اگر وہ رسالہ تم کو پسند آ گیاتو ۔۔پھر میں تم کو پڑھنے کے لیئے بھی رسالے دوں گی ۔۔۔۔ اس پر میں نے نیم رضامندی ظاہر کرتے ہوئے اس کے کہا کہ۔۔۔ان فوٹوؤں والے رسالے میں کیا ہوتا ہے ۔۔تو وہ شرارت سے مسکرا کر بولی۔۔۔ یہ تم خود ہی دیکھ لینا۔۔۔
اگلے دن گھر سے سکول آتے ہوئے میں نے عاشی کو اس بارے میں بتایا تو سن کر وہ خاصی پر جوش سی ہو گئی اور کہنے لگی۔۔۔ تم ضرور اس سے یہ رسالہ لینا ہم دونوں مل کر دیکھیں گی ۔۔۔ اور پھر سارے راستے ہم دونوں اسی بارے ڈسکس کرتی رہیں ۔۔۔ اور طے یہ پایا کہ زرینہ جو عاشی کی جگہ میرے ساتھ بیٹھی تھی اسے بیٹھے رہنے دینا ہے جبکہ عاشی بائیں جانب میری ساتھ بیٹھ جائے گی۔۔ چنانچہ سکول پہنچتے ہی اسمبلی سے پہلے زرینہ مجھے ایک طرف لے گئی اور کہنے لگی ۔۔۔۔وہ تمہارا رسالہ میں لائی ہوں ۔۔۔ تو میں نے بظاہر بے نیازی سے اس کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔اس کی کیا ضرورت تھی ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ایک بار دیکھ تو لو۔۔۔۔ اس طرح تھوڑے سے نخروں کے بعد میں نے اس سے رسالہ لینے کی حامی بھر لی ۔۔ چنانچہ ایک خالی پیریڈ میں اس نے بڑے طریقے سے اردو کی کتاب میں رکھ کر وہ رسالہ میرے حوالے کیا ۔۔۔ جو میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس سے وصول کیا اور پھر چوری چوری اس کو دیکھنے لگی۔۔۔۔ رسالے کی پہلی تصویر دیکھتے ہی میری تو سٹی گم ہو گئی۔۔۔ وہ ایک گوری کی ننگی فوٹو تھی ۔۔۔ جس نے اپنے ہاتھ میں ایک کالے حبشی کا بڑا سا لن پکڑا ہوا تھا ۔۔۔ یہ تصویر دیکھ کر میں تو کانوں تک سرخ ہو گئی ۔۔اور اس کے ساتھ ہی میرے نیچے بھانبڑ جلنا شروع ہو گیا۔۔۔ جیسے جیسے میں ان تصوروں کو دیکھتی جاتی ویسے ویسے میرے چودہ طبق روشن ہوتے جاتے اور مجھ پر سیکس کے نئے نئے افق طلوع ہونا شروع ہو گئے ۔۔۔اور مجھے سیکس کی نئی نئی ڈیفی نیشن معلوم ہونا شروع ہو گئیں کہاں میں اور عاشی صرف گالوں کو چومنا اور مموں کو چوسنا ۔دبانا اور پھدی کو مسلنا ہی سیکس کی معراج سمجھتی تھیں جبکہ یہاں تو لِپ کسنگ ۔۔۔ پھدی چاٹنا ۔۔۔۔ اور لن چوسنا ۔۔۔
وغیرہ وغیرہ دیکھ کر میں اندر سے بڑی ہی پرُ جوش سی ہو گئی اور خاص کر میری چوت بہت سخت اشتعال میں آ گئی۔۔ لیکن بظاہر میں نے زرینہ کی طرف دیکھ کر کہا کہ ۔۔۔یہ گوریاں کتنی گندی ہوتی ہیں ۔۔ دیکھو نا ۔۔۔اس کی پیشاب والی جگہ کو منہ میں لیا ہوا ہے۔۔۔ جبکہ اندر سے میرا جی یہ کر رہا تھا کہ کاش ایسا موٹا اور کالا ڈنڈا مجھے مل جائے تو اپنی بھی موجیں ہو جائیں۔۔۔ میری بات سن کر زرینہ کہنے لگی۔۔۔ اس بات کو چھوڑ تو یہ بتا کہ رسالہ کیسا ہے؟ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ اچھا رسالہ ہے ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔آرام سے دیکھ میں چھٹی کے وقت تم سے لے لوں گی۔۔۔ چنانچہ تفریع کے وقت اسی ٹاہلی کے نیچے بیٹھ کر میں نے عاشی نے جی بھر کر اس رسالے کی فوٹوؤں کو دیکھا اور پھر یہ بھی طے کیا کہ آئیندہ ہم بھی ایک دوسرے کی پھدیاں چاٹا کریں گی۔۔۔۔ تفریع کے بعد مطالعہ کے پیریڈ میں بھی ۔۔۔ میں چوری چوری وہی رسالہ دیکھتی رہی۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ جب میرے جزبات عروج پر پہنچ گئے تو میں نے چپکے سے عاشی کے کان میں کہا۔۔۔ عاشی ۔۔ فوٹوویں دیکھ دیکھ کر میں تو آؤٹ ہو رہی ہوں۔۔ میری پھدی کا کچھ کر ۔۔۔تو وہ بھی بظاہر کتاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی حرام دیئے ۔۔۔اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا چپ کر کے ٹیچر کا لیکچر سنو ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے ٹیچر کی بات سننے کی بڑی کوشش کی لیکن نیچے سے میری پھدی میں سخت ابال آیا ہوا تھا اس لیئے میں نے۔۔۔۔پھر عاشی کی طرف جھکی اور بولی۔۔۔۔۔قسم سے عاشی بات میری برداشت سے باہر ہو گئی ہے۔۔تب عاشی نے برا سا منہ بنا یا اور بولی ۔۔۔ سنجا یوہنے ( پھدی مروانے والیئے) فوٹوؤں کو اتنا زیادہ نہیں دیکھنا تھا ۔۔اور پھر بولی اچھا ٹیچر سے اجازت لیکر کر تم واش روم کی طرف جاؤ میں بھی تھوڑی دیر تک آتی ہوں ۔۔۔ عاشی کی بات سن کر میں نے شکر کیا ۔۔۔اور ٹیچر سے اجازت لیکر کر واش روم کی طرف چلی گئی جو کہ ہمارے سکول کی کلاس رومز کے آخر میں ایک ساتھ لائین میں بنے ہوئے تھے۔۔۔
میں کلاس سے نکل کر آہستہ آہستہ ایک لائن میں بنے واش رومز کی طرف بڑھنے لگی جب میں ان کے قریب پہنچی تو پیچھے مُڑ کر دیکھا تو عاشی بھی تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے میری طرف آ رہی تھی میں نے اسے آخری واش روم کا اشارہ کیا اور جلد ی سے وہاں گھس کر عاشی کا انتظار کرنے لگی۔۔۔تھوڑی ہی دیر بعد عاشی بھی میرے واش روم میں آ گئی ۔۔۔اورکنڈی لگتے ہی اس نے اپنا ہاتھ میری شلوار کے اندر ڈال دیا ۔۔۔۔۔اور چوت پر ہاتھ لگا کر بولی۔۔۔۔۔ حرام دیئے لوکی جہیڑا کم رات دے اندھیرے وچ کردے نے ۔۔۔او ۔۔۔تُوں میتھوں شِکر دوپہرے کروا رہی ایں ۔۔۔۔(حرام ذادی ۔ لوگ جو کام رات کے اندھیرے میں کرتے ہیں تم وہی کام مجھ سے بھری دوپہر میں کروا رہی ہو) اور اس کے ساتھ ہی اس نے بڑی تیزی کے ساتھ میری پھدی کو مسلنا شروع کر دیا ۔۔۔۔
مجھے چونکہ پہلے ہی سے کافی گرمی چڑھی ہوئی تھی اس لیئے اس کے تھوڑی سی دیر چوت ملنے سے میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔۔ جیسے ہی میں خارج ہوئی اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ بس ۔۔۔ تو میں نے شکریہ کے طور پر اس کے گال چومے اور اس کے ممے دبا کر بولی ۔۔بس ۔۔۔ تو وہ مجھ سے یہ کہتے ہوئے رُخصت ہوئی کہ اپنا حلیہ درست کر کے آ جاؤ ۔۔۔وہ تو چلی گئی ۔۔۔ لیکن میرے کانوں میں اس کا یہ جملہ مسلسل گونجتا رہا کہ ۔۔۔ لوگ جو کام رات کی تاریکی میں کرتے ہیں وہ ۔۔۔ پھر نا جانے کیوں میرے زہین عاشی کا کہا ہوا ۔۔۔رات کی تاریکی میں ۔۔۔۔رات کی تاریکی ۔۔۔ میرے ذہن میں مسلسل گردش کرتا رہا۔۔۔۔
جیسا کہ میں نے شروع میں آپ کو بتایا ہے کہ ہمارے گھر میں دو ہی کمرے تھے ایک میں امی اور ابا سوتے تھے جبکہ دوسرے کمرے میں ۔۔۔ میں ۔۔۔اور میرا چھوٹا بھائی شعیب سوتے تھے۔۔۔۔ جس دور کی میں بات کر رہی ہوں اس وقت شعیب جسے پیار سے ہم شبی کہتے تھے۔۔۔۔ پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا ۔۔۔ یہاں یہ بات بھی آپ لوگوں کے گوش گزار کر دوں کہ بڑی ہونے کی وجہ سے شبی کو ٹیوشن بھی پڑھاتی تھی اور پڑھاتے وقت اس کو خوب مارا بھی کرتی تھی ۔۔۔اس لیئے شبی کی مجھ سے جان جاتی تھی ۔۔۔ مطلب وہ مجھ سے بہت ڈرتا تھا۔۔۔ یہ اسی دن کی بات ہے کہ عاشی کے ہاتھ مارنے سے وقتی طور پر تو میری پھدی ٹھنڈی ہو گئی تھی ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ اس دن ننگی تصوریریں دیکھنے کی وجہ سے میں ضرورت سے سے کچھ زیادہ ہی گرم ہو گئی تھی۔۔۔ اور رسالے میں دیکھی ہوئی ننگی تصویریں بار بار میری آنکھوں کے سامنے آ جاتی تھی ۔۔۔۔اس لیئے میں بڑی بے چین تھی ۔۔۔ اور یہ سکول سے واپسی پر دوپہر کا واقعہ ہے کہ گرمی کی وجہ سے امی ابا اپنے کمرے میں سوئے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ ہماری چھوٹی بہن زینب بھی سوتی تھی جبکہ میں اور شبی ایک ہی بستر پر سویا کرتے تھے۔۔۔۔
دوپہر کا وقت تھا ۔۔۔ میں سکول سے واپسی پر گھر آئی اور یونیفارم وغیرہ اتار کر واش روم سے ہو کر واپس اپنے کمرے آئی تو دیکھا کہ شبی سیدھے منہ بستر پر لیٹا ہوا ہے میں زرا اس کے پاس گئی تو دیکھا کہ ۔۔وہ گہری نیند سو رہا تھا ۔۔۔ اسے دیکھ کر ابھی میں واپس ہونے ہی والی تھی کہ ۔۔۔ اچانک میں ٹھٹھک کر رُک گئی۔۔۔ اور جس چیز نے مجھے رُکنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ شیعب کا لن تھا۔۔۔۔ جو اس وقت الف کھڑا تھا ۔۔۔ گو کہ وہ اتنا بڑا نہیں تھا ۔۔۔ لیکن پھر بھی اس کی شلوار اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔۔جسے دیکھ کر ۔میرے بڑھتے ہوئے قدم رُک گئےتھے ۔۔۔۔۔ اور میں ۔۔میری نظریں ۔۔ شعیب کی شلوار میں بنے ابھارپر جم سی گئیں ۔۔۔ عین اسی وقت مجھے رسالے میں دیکھے ہوئے کالوں کے لن یاد آ گئے۔۔۔۔ ان کے لن کا یاد آنا تھا ۔۔۔۔ کہ میں پسینہ پسینہ ہو گئی ۔۔۔۔ اور چھوٹے بھائی کا لن دیکھتے ہوئے میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔۔ پھر میں نے یہ کہہ کر اپنی نظروں کو وہاں سے ہٹا دیا ۔۔۔ کہ ۔۔یہ۔یہ میں کیا کر رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔۔۔ سگا چھوٹا بھائی۔۔۔ اور باہر جانے کے لیئے آگے بڑھ گئی۔۔۔۔ لیکن ابھی میں دو ہی قدم آگے بڑھی تھی ۔۔۔ کہ ۔۔۔ پھر سے میری آنکھوں کے آگے ۔۔۔ رسالے میں دیکھے ہوئے کالوں کے بڑے بڑے لن گھوم گئے ۔۔۔ اور میں نے یہ کہہ کر خود کو روک لیا کہ دیکھوں تو سہی کہ شبی کا لن ان کالوں کے لنوں سے کتنا چھوٹا ہے۔۔۔۔ اور دھڑکتے دل کےساتھ اُلٹے قدموں سے واپس ہو گئی۔۔۔۔ اور ایک بار پھر شبی کے کھڑے ہوئے لن کو دیکھنے لگی ۔۔۔ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں امی یا زینب نہ اُٹھ جائے چنانچہ میں جلدی سے دروازے کے پاس گئی اور باہر جھانک کر دیکھا تو ۔۔باہر ۔۔۔۔ ہُو کا عالم تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں واپس ہوئی ۔۔۔۔ اور شبی کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔۔ اس وقت میرے دل میں طرح طرح کے خیال آ رہے تھے۔۔۔۔ لیکن میں خود کو مختلف دلیلیں دیتی ۔۔۔شبی کی چارپائی کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔۔اس کا لن ابھی تک ویسے ہی کھڑا تھا۔۔۔پتہ نہیں کیوں اس وقت میں بڑی احیایط کے ساتھ بڑے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی ۔۔اور بڑے ہی احتیاط سے چلتے ہوئے جیسے ہی میں شبی کی چارپائی کے قریب ۔۔۔ پہنچی ۔۔ ۔۔۔ بہت احتیاط کے ساتھ ۔۔