باجی کے دونوں کولوں کو پکڑ کر دبایا اور کھول رہا تھا اور بیچ میں انگلی بھی پھر رہا تھا کہ اچانک میں نے شدت سے جذباتی میں اپنے انگلی باجے کی گرینڈ میں داخل کر دی بج کے ہونٹ میرے ہونٹوں میں گڑ گئے اور درد کی وجہ سے باجی نے میرے ہونٹ پر کاٹ لیا اور ایک دم سے ہونٹ مجھ سے الگ کیے اور پیچھے سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور نفی میں سر ہے لانے لگی میرے دائیں ہاتھ کے بیج والی انگلی اب تک باجی کے گرینڈ کے اندر تک اور بائیں ہاتھ میں نی باجی کے بائیں چبوتر پر رکھا ہوا تھا میں نے باجی کی گانڈ سے انگلی نکال لی اور دونوں ہاتھ شلوار سے نکال لیے باجی ایک دم دیوار کے ساتھ پیچھے چپک گئی اور اپنی گرینڈ کو پکڑ لیا انگلی کرنے سے باجی کو درد ہو رہا تھا باجی لمبے لمبے سانس لے رہی تھی اور میں نے اتنے میں اپنی قمیض کی بٹن کھولی اور اپنے کمیز اتارنے لگا باجی نے کہا کہ جنید یہ کیا کر رہے ہو ۔میں نے کہا وہی جو اپ دیکھ رہی ہیں باجی نے کہا نہیں نہیں جنید میں اس سے اگے نہیں بڑھوں گی اتنا کچھ تو کر لیا ہے تم نے میں نے باجی کو کہا ابھی تو بہت کچھ باقی ہے اور باجی کو دھکا دے کر اپنے پاس کھینچا اور باجی اور میں چارپائی پر گرنے والے ہو گئے اور باجی میرے اوپر اگئی باجی کا وزن بہت ہی زیادہ تھا میں نے دونوں ٹانگوں میں باجی عائشہ کو جکڑ لیا اور نیچے سے اپنے دونوں ٹانگیں عائشہ کی کمر کے گرد باندھ دی اور ان کی جبڑوں پر بھی پھیرنے لگا نیچے سے میرا نانگ عائشہ کے پیٹ پر دبا ہوا تھا عائشہ نے کہا جنید پلیز چلے جاؤ کہیں نوید اٹھ نہ جائے ۔میں نے کہا نہیں اپ ہر بار ایسا کرتے ہیں خود مزے لے کر مجھے چھوڑ دیتی ہیں عائشہ نے کہا اچھا تم کسی اور دن انا میں وعدہ کر رہی ہوں پھر اس سے زیادہ کریں گے ۔میں نے کہا پکا وعدہ عائشہ نے کہا ہاں پکا وعدہ میرے چہرے پر خوشی دوڑ گئی اور میں نے عائشہ کی گال کو چوم لیا اچانک مجھے خیال ایا کہ امام صاحب نے مجھے کتاب لےانا کا کہا تھا یہ خیال اتے ہی میں جھٹ سے اٹھا عائشہ بھی اٹھی اور میں اپنی شلوار قمیض پہننے لگا ٹائم دیکھا تو 12 10 ہو رہے تھے عائشہ نے جلدی سے کتاب نکال کر مجھے دی اور کہا اب جلدی جاؤ بھی کہیں امام صاحب گھر پر ہی نہ ا جائیں میں نے عائشہ سے پوچھا پھر کب اؤں عائشہ نے کہا دیکھو میں بتا دوں گی لیکن اب سالہ حفصہ اور اصل میں کا مدرسہ دوپہر تک ہے اور وہ دو بجے اتے ہیں اور صبح کے ٹائم اکثر امام صاحب گھر پر ہوتے ہیں اس لیے ایسا کرنا تم اگلے جمعہ کو یا ہفتے کو ہی انا باقی دنوں میں بڑا مشکل ہے اگر امام صاحب صبح گھر پر نہ ہوتے تو پھر ٹھیک تھا میں تمہیں بلا بھی لیتی لیکن صبح امام صاحب گھر پر ہوتے ہیں میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے میں جلدی جلدی میں گھر سے نکلنے لگا میں گلی سے نکل کر اگے گلی میں مولا تا کہ امام صاحب اگے سے اتے ہوئے مجھے نظر ائے امام صاحب میرے پاس پہنچے اور تھوڑا ناراضگی کے ساتھ بولے جنید اتنی دیر کہاں لگاتی تھی میں نے کہا امام صاحب اصل میں مجھے بہت تیز پیشاب ا رہا تھا اس لیے میں گھر چلا گیا تھا اور امی نے دکان سے کچھ لینے کو بھی بولا تھا اس لیے بس میں ابھی ابھی سامان دیکھ کر ایا ہوں امی کو میں نے کہا امام صاحب مجھے معاف کر دیں امام صاحب نے کہا اچھا بیٹا جنید کوئی بات نہیں لیکن جمعہ کے ٹائم جلدی انا تم ہمیشہ اخر میں ہی اتے ہو میں نے جی امام صاحب کا اور اپنے گھر کی طرف چل دیا کچھ دن بعد عائشہ بازی کے گھر پہنچا تو دروازہ بند تھا میں تھوڑا حیران ہوا اج دروازہ بند ہے پھر میں نے دروازہ ہلکا سا کھٹکھٹایا تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور باجی نے دروازہ خولہ اور مجھے دیکھ کر بولی تم کیا ہوا میں نے کہا یاد نہیں اپ کو کیا باجی نے ایک نظر پیچھے دیکھا اور کہا جنید ابھی نوید اٹھا ہوا ہے اور وہ کھیل کود کر رہا ہے اس کا ڈر ہے تم ایسا کرنا کل انا پونے ایک بجے جب امام صاحب بھی چلے جائیں گے ظاہر کے لیے پھر کوئی نہیں ہوگا گھر پہ بازی کی بات سن کر میں نے عجیب سی موڈ کے ساتھ کہا اچھا ٹھیک ہے لیکن کل الزامی پھر میں مولا اور باجی نے دروازہ بند کر لیا مجھے سخت غصہ انے لگا باجی پر یہ باجی بھی نہ بڑی کوئی ظالم عورت ہے صحیح بات ہے یہ عورت کا مکر فریب بڑا مکرو ہوتا ہے ساڑھے تین گھنٹے میں نے چائے کے ہوٹل پر بیٹھا کر کواری کاٹی اور جب باجی کے گھر پہنچا تو اگے سے بہانے بناتے ہے میں دل ہی دل میں کہنے لگا کل تو اسکو نہیں چھوڑوں گا کل اس کو بتاؤں گا اس نے مجھے جتنا تڑپایا ۔پھر میں غصے میں گھر کی طرف چل دیا ٹائم اس وقت 12 کے قریب ہونے والا تھا تھوڑی دیر گھر کے باہر رک کر میں گھر میں داخل ہو گیا اور بیگ پھینک کر بیڈ پر سو گیا اگلے دن میں ناشتے کر کے گھر سے باہر نکل اور باجی عائشہ کے گھر کی طرف چل دیا میں نے سوچا شاید امام صاحب اب چلے گئے ہوں گے باج عائشہ کے گھر پہنچا تو اج بھی دروازہ بند تھا میں نے گلی میں ادھر ادھر دیکھ کر دروازہ بجایا تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا باجی نمودار ہوئی اور مجھے دیکھ کر تھوڑی سے سہم گئے پھر اندر انے کا اشارہ کیا میں کمرے میں پہنچا باجی عائشہ نے چارپائی پر گدھا بیچا رکھا تھا میں نے سوچا شاید باجی عائشہ بھی اج تیاری کر کے رکھی ہے باجی عائشہ نے گھڑی میری طرف دیکھا اور کہا تم بیٹھو میں چائے بنا کر لاتے ہوں تو ہمارے لیے میں نے کہا نہیں نہیں چھوڑیں بس عائشہ نے کہا اچھا اب تم منع کرو گے پھر عائشہ کچن میں چلی گئی مجھ سے بے چینی کے عالم میں بیٹھا نہیں جا رہا تھا گاڑی پر ٹائم دیکھا تو 12:50 ہو رہے تھے مجھے اندازہ تھا امام صاحب کا مضم پونے دو بجے مسجد میں ہی ہوں گے سو میرے پاس پونے گھنٹے کا ٹائم تھا اج میں اپنے ارمانوں پر پانی نہیں پھیرنے دینا چاہتا تھا اور ہر حال میں عائشہ کے جسم کو بھرپور طرف سے نچوڑنا چاہتا تھا میرے دل میں خیال ایا کہ کچن میں جاؤں لیکن رک گیا پھر دس منٹ بعد عائشہ کچن سے چائے لے کر ائی اور خود سامنے بڑے کرسی پر بیٹھ گئی اور چائے پیتے پیتے میری طرف دیکھنے لگی عائشہ نے اج نیلے کلر کے شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور اوپر سے کالی چادر لے رکھی تھی میں نے جلدی جلدی چائے ختم کی اور عائشہ کو بولا اپ جلدی کریں عائشہ نے کہا کس چیز کے لیے میں عجیب غصے والے موڈ میں بولا عائشہ پلیز نہ کب سے انتظار کر رہا ہوں عائشہ نے کہا اچھا تم ایک بات بتاؤ میں نے کہا جی باجی عائشہ نے پوچھا تم مجھے پیچھے سے کیوں دباتے ہو میں نے بولا بازی مجھے مزہ اتا ہے اور مجھے اچھی لگتی ہے بس جی نے کہا ظہیر کو تو میں اپنے اندر ہاتھ ڈالنے نہیں دیا تھا کبھی تم تو پھر بھی بہت اگے بڑھ چکے ہو بازی نے کہا امام صاحب تو میں بچہ سمجھتے ہیں لیکن ان کو کیا پتہ یہ بچہ اتنا بڑا ہو گیا ہے عائشہ تھوڑا سا مسکرا دے میں نے کہا اچھا نہ بس زیادہ باتیں نہ کریں میں اٹھا اور باجی کی کرسی کے قریب ایا باجی عائشہ دونوں ہاتھ پکڑے اور کرسی سے اٹھایا باجی عائشہ نے میری انکھوں میں دیکھا اور پھر مجھے گلے لگا لیا میں نے بے کمر کے گرد ہاتھ کس کر باندھ دیے باجی عائشہ میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر چپکی ہوئی تھی اور میں نیچے ہاتھ لے جا چکا تھا میں نے باز عائشہ کی قمیض کو سائیڈ سے پکڑا اور اٹھا کر شلوار کے اندر ہاتھ داخل کر دیے عائشہ کے نرم تربوز میرے ہاتھوں میں تھے میں باجی کے کولوں کو اسی دن کی طرح دبا رہا تھا جس طرح پہلی بار دبایا تھا باجی عائشہ کے کولوں کو اچھی طرح دباتے دباتے بیچ میں انگل بیری نے لگا اور بازی کے درگزوں کا سراغ تلاش کرنے لگا مجھے باجی کی گرینڈ کا سراغ مل گیا اور میں نے چوٹ سے بیچ والی انگلی عائشہ کے چڑیا کے سراغ میں داخل کر دی عائشہ ایک دم سے ہلیں اور میرے گلے سے الگ ہوئی اور میری انکھوں میں دیکھ کر نہیں نہیں میں سر ہلانے لگے میں نے عائشہ کے ہونٹوں پر اونٹ رکھے نیچے سے میرا 8 انچ کا باجی عائشہ کی چڑیا کے اوپر حصے پر لگنے لگا میں نے اب عائشہ کے گرینڈ میں انگلی اندر باہر کرنا شروع کی جس کی وجہ سے باجی کو درد ہونے لگا اور کبھی کبھی میرے ہونٹوں پر کاٹ لیتی ہے اچانک میں نے عائشہ کا ایک ہاتھ پکڑا اور اپنے سانپ پر رکھا کر دبا دیا پھر بعد جی ٹروز کے اوپر سے میری ناک کو سلانے لگی میں باجی کے ہونٹ چوم رہا تھا میں اب فل مزے میں تھا میرا اگلا قدم بڑھنے کا ارادہ تھا اے شب بی مد ہوش ہو رہی تھی اور میرے انگلی اب باجی عائشہ کی گرینڈ میں اسانی سے اندر باہر ہو رہی تھی میں نے عائشہ کے مامو پر ہاتھ ہٹایا اور قمیض کا پلو نیچے سے پکڑ کر بایاں ہاتھ بازی کے پیٹ پر رکھا تو باجی تھوڑی سی ہیلی پھر میں نے بغیر رکے ہاتھ بج کے منہ میں پر رکھ دیا باجی نے کچھ نہیں کہا